Nabiyon Mein Sabse Afzal Rutba Mere Nabi Ka Lyrics

Nabiyon Mein Sabse Afzal Rutba Mere Nabi Ka Lyrics

 

Zubañ jab zikr-e-sana-e-Rasool karti hai
Sukhan ki daad Khuda se wusool karti hai,
Ilaaj ho na saka jiska sari duniya meiñ
Ilaaj uska Madine ki dhool karti hai.

 

Nabiyon Mein Sabse Afzal Rutba Mere Nabi Ka

Nabiyon Mein Sabse Afzal Rutba Mere Nabi Ka
Qur’aan Hai Mukammal Chehra Mere Nabi Ka.

 

Utra Nahiñ Zameeñ Par Saaya Mere Nabi ka
Allah Ka Hai Jalwa, Jalwa Mere Nabi Ka

 

Allah Ki Qasam Wo Taqdeer Ke Dhani hain
Jo Log Dekh Aaye Rouza Mere Nabi Ka.

 

Sarkar e Do Jahañ Ka Ye Khaas Mojiza Hai
Kankar Bhi Pad Rahe Haiñ Kalma Mere Nabi Ka.

 

Ho Jayeiñ Lakh Paida Islaam Ke Mukhaalif
Chalta Rahega Yuñ Hi Sikka Mere Nabi Ka.

 

Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..
Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..

 

hañ-hañ kami karo na salaam o salaat meiñ
Wo khoobiyañ hain sarwar-e-aalam ki zaat meiñ
Quraan utra Pyare Nabi ki Sifaat meiñ
Haq ne na dekha Aapsa jab kaayenat meiñ
Sari Khudayi de di Muhammad ﷺ ke haath Meiñ

Nabiyoñ Meiñ SabSe Afzal..
Nabiyoñ Meiñ SabSe Afzal..

 

Wafa laaye haiñ, ulfat laaye haiñ, eemaan laaye haiñ
Qayamat meiñ jo kaam aayega wo saamaan laaye haiñ
Muhammad Mustafa ﷺ Allah ka farmaan laaye haiñ
Gunahgaaroñ ki bakhshish ke liye Qur’aan laaye haiñ

Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..
Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..

 

Sar-e-mehshar bashar to kya farishte kaañp jaayeñge
Hujoom-e-anbiya tak ko paseene chhot jayeñge
Shab-e-meraj ka Sadqa aseeroñ ko dilayeñge
Muhammad ﷺ hashr ke maidaañ Meiñ rahmat ban ke chhayeñge

Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..
Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..

 

Phaili to itr-daan se Khushboo nahi gayi
Aaqa ki is jahaan se khushbu nahi gayi
Meraj ke safar ko zamane guzar gaye
Ab tak bhi Aasmañ se khushbu nahi gayi.

Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..
Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..
Nabiyoñ Meiñ Sab Se Afzal..

 

 

 

 

خوفِ خدا ضروری کیوں؟؟
حضرت علی بن عثمان الہجویری ؒرحمت اللہ اپنی تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘
میں خوف کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ’’خوف اس مکروہ چیز کو کہتے ہیں جس کے آنے سے دل میں ناگواری یا جسم پر کوئی سختی آئے یا حاصل شدہ محب ومحبوب چیز کے گم ہونے کا خدشہ ہو‘‘ مثلاً دورانِ سفر حادثہ ہوجانے کا خوف، اپنی عزت یا مال جانے کا ڈر یا کسی بھی قسم کی سزا ملنے کا خوف وغیرہ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزائوں کا ڈر یا اللہ تعالیٰ کی عظمت، ہیبت اور اس کی بے نیازی سے ڈرا جائے۔
خوف کی کیفیت کو اللہ پاک نے انسان کی نفسیات کا حصہ بنایا ہے کیونکہ کوئی بھی انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب یا معاشرے کا حصہ ہے اس میں خوف کی کیفیات رونما ہوتی رہتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرہ یا جگہ پر قانون اور ضابطے بنائے جاتے ہیں تو ان قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزائیں بھی مقرر ہوتی ہیں تاکہ سزا کے خوف سے لوگ جرم نہ کریں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے نبی اور رسول بھیجے جنہوں نے نہ صرف مقصد ِ حیات یاد دلایا بلکہ فلاح یافتہ زندگی گزارنے کے لیے اصول و ضوابط بھی وضع کر کے دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں گزشتہ اقوام اور امتوں کے احوال اور ان پر آنے والے عذاب اور دیگر قصے بیان فرمائے تاکہ انسان ان سے عبرت حاصل کریں اور جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عمل دیکھ رہا ہے اور ان اعمال کے مطابق ہی اسے جزا اور سزا ہوگی مگر جس طرح کچھ لوگوں نے دنیا کی عدالتوں سے بچ نکلنے کے طریقے نکال لیے اور بے خوف ہو گئے اس طرح عام مسلمان بھی اللہ کی پکڑ سے یا تو بے خوف ہوگئے یا پھر یہ گمان کر لیا کہ ہمارے گناہ معاف کرنا بھی اس کے اختیار میں ہے چاہے کرے چاہے نہ کرے۔ عام مسلمان بے خوفی کی اس حالت میں مزید بگڑتا جا رہا ہے کیونکہ یہ ساری حدیں اور ضابطے اس کے اندر موجود ’’نفس امارہ‘‘ کی سرشت کے خلاف ہیں اور یہ ہمیشہ ان سے تجاوز کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ بلا روک ٹوک جو مرضی کرے کھائے پیے،پہنے اور کہے اپنے نفس کی اس خصلت سے بے خبر وہ اس کی خواہشات کو مانتے ہیں جس سے ان کو فوری لذت اور آرام محسوس ہوتاہے کہ نفس ان پر غالب آتا جاتا ہے اور خوفِ خدا دب جاتا ہے۔
سیّدنا غوث الاعظم ؓ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:-۔
جس کی آرزو اور تمنا (اللہ کے) خوف پر غالب ہوتی ہے وہ بے دین بن جاتا ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 25)
موجودہ دور ایجادات کا دور ہے۔ سائنس کی ترقی میں جتنی ایجادات اب ہوئی ہیں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ یہ تمام ایجادات اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور آسائشیں ہیں لیکن انسان انہی نعمتوں اور آسائشوں میں کھو کر خدا کو بھول جاتا ہے۔ جب خدا کو ہی بھلا دیا تو اس کا خوف کہاں سے آئے؟
خوفِ خدا کا نہ ہونا یا انتہائی کم ہونا بے باکی اور گناہوں پر جری کر دیتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے ’’ درحقیقت بندگانِ خدا میں علم والے ہی اللہ کا خوف رکھتے ہیں‘‘۔ (سورۃ فاطر28 )

 

 

10 ذی الحجه شریف
عرس جد اعلیٰ سادات اَیرایاں حضور سیّدنا جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت حسینی بخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ مبارک ہو

مسلك اعلیٰ حضرت سلامت رہے

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ عراق عجم کے قصبہ سہرورد میں پیدا ہوئے اور بغداد میں اپنے چچا ابو نجیب عبد القاہر کے سایہ عاطفت میں پرورش و تربیت پائی نامور علماء و فضلاء سے علوم مروجہ حاصل کئے حدیث فقہ کلام اور علوم ادبیہ میں مہارت کاملہ رکھتے تھے تصوف اور زہد و اتقا میں اپنی نظیر آپ تھے خلفاء بغداد اور بہت سے امرا و سلاطین شیخ سہروردی کا بہت احترام کرتے تھے وہ سنت کے نہایت متبع تھے اور شافعی مسلک رکھتے تھے فقہ میں اجتہاد کا درجہ حاصل تھا ماہ محرم 632ھ بغداد میں آپ کا وصال ہوا شیخ سہروردی کتب کثیرہ کے مصنف تھے کلمان نے اپنی مشہور عربی ادب کی تاریخ میں شیخ کی اکیس کتابوں کا ذکر کیا ہے حکیم شمس اللہ قادری نے ان میں سے دس کا مفصل تعارف کرایا ہے سب سے اہم کتاب عوارف المعارف ہے جو تصوف کی نہایت مقبول اور خاص کتاب ہے صوفیاء کے حلقوں میں باقاعدہ اس کا درس ہوتا تھا ہند و پاک میں ممتاز علماء و مصنفین نے عوارف المعارف پر شروح و حواشی لکھے ہیں اور مختلف زبانوں فارسی ترکی اور اردو وغیرہ میں ترجمے ہوئے ہیں شیخ شہاب الدین سہروردی اجل صوفیا کرام میں ہیں لوگ مختلف دیار و امصار سے بغداد آکر شیخ سے فیض حاصل کرتے تھے ان کے نامور خلفاء میں قاضی حمید الدین ناگوری شیخ نور الدین مبارک غزنوی اور شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی خاص طور سے قابل ذکر ہیں ان حضرات کے ذریعے ہند و پاک میں سہروردی سلسلے کی خوب ترویج و اشاعت ہوئی ہے
شیخ حمید الدین ناگوری التمش کے عہد کے نامور شیخ تھے انہوں نے سیر و سیاحت بہت کی تھی خواجہ بختیار کاکی سے بہت گہرے تعلقات تھے تصوف پر کئی کتب لکھیں جن میں طوائع الشموس سب سے زیادہ مشہور ہے خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کی صوفیانہ انداز میں شرح کی ہے شیخ ناگوری سماع کے بہت دلدادہ تھے شمالی ہند کے قدیم شہر بدایوں میں شیخ ناگوری کے نامور خلفاء میں شیخ شاہی روشن ضمیر اور شیخ احمد نہر والی مشہور ہیں شیخ شاہی بڑے صاحب مرتبہ بزرگ تھے رسیاں بٹ کر حلال روزی کماتے تھے ان کے دو بھائی خواجہ بدر الدین موئے تاب اور خواجہ عثمان بھی بڑے صاحب نسبت بزرگ تھے اور اپنے ہی بھائی شیخ شاہی کے مرید و خلیفہ تھے خواجہ بدر الدین بالوں کی رسیاں بٹا کرتے تھے یہی نفوس قدسیہ ہیں جن کے ذریعے کٹھیر میں اسلام کی اشاعت ہوئی شیخ نظام الدین اولیاء بدایونی ان کے تعلق سے فرماتے ہیں : بدایوں میں دو بھائی تھے شیخ شاہی روشن ضمیر اور دوسرے ابو بکر موئے تاب ابو بکر موئے تاب کو میں نے دیکھا ہے شیخ شاہی کو نہیں دیکھا
شیخ احمد نہر والی بھی بڑے پایہ کے صوفی تھے خود شیخ ناگوری ان سے ملنے بدایوں آئے حضرت شیخ ناگوری اپنے مرید شیخ احمد نہر والی کے متعلق فرماتے ہیں اگر احمد کے ریاضت و مجاہدہ کو وزن کریں تو دس صوفیوں کے برابر ہوگا جس مجلس میں خواجہ بختیار کاکی کا وصال ہوا اس میں شیخ احمد بھی موجود تھے آپ کا وصال 681ھ بدایوں میں ہوا

جاری ہے………..

📍خانقاہ قادریہ سہروردیہ
جاجمؤ شریف کانپور

 

Leave a Reply